آج کے اس دور جدید میں ہر شخص مصروف دیکھائی دیتا ہے ۔ کسی کے پاس وقت نہیں ہے ۔ ہر فرد اپنے اپنے کاموں میں لگا ہوا ہے ۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے ۔ کون جی رہا ہے ، کون مر رہا ہے ، کون کھا پی رہا ہے ، کون بھوکا ہے ، کون خوش ہے، کون غمگین ہے کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا، فرق پڑتا ہے تو صرف اپنی ذات سے اور اپنی خوشیوں سے۔
انسان ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ ہم اللہ سے تو امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے لیئے آسانیاں پیدا کرے اور مشکلات کو دور کرے لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر ہم اللہ سے اچھے کی امید رکھتے ہیں اور اپنے لیئے آسانیاں چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کے لیئے بھی آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی ۔ اللہ رب العزت تو سب کر سکتا ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے.
کائنات کا ایک ایک ذرہ اللہ تبارک و تعالی کا محتاج ہے ۔ ہم اللہ کے بندوں کے لیئے آسانیاں کیسے پیدا کر سکتے ہیں ۔۔۔ ؟
ایک نوجوان شخص نے کسی درویش سے دعا کرنے کو کہا درویش نے نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے اطمینان بھرے لہجے اور دل سے دُعا دی کہ ” بیٹا اللہ تجھے آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا فرمائے”
اس شخص کو بہت حیرت ہوئی اور کہنے لگا : الحمد اللہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ہر سال وقت پر ذکوة دیتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں، ملازمین کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھتے ہیں، کام والی کے بچے کی تعلیم کا خرچہ بھی ہم اٹھاتے ہیں ، اللہ نے ہمیں توفیق دی ہے اور آسانیاں تو ہم بانٹ چکے ہیں ….. درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے لہجے میں بولا:
میرے بیٹے سانس، پیسہ اور کھانا کھانا … یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں۔
کیا بیٹی باپ کی کمزوری ہوتی ہے … ؟
یاد رکھو “رَازِق اور الرَّزَّاق” صرف اللہ تبارک و تعالی کی ذات ہے . تم یا کوئی انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں ۔ تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو الله تعالٰی کی ذات یہ سب کام ایک سیکنڈ میں بھی کر لے گی ، اور تم جو کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو.
پھر درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور پھر بولا:
میرے بچے آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا کسے کہتے ہیں….. ؟
کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹہ اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا آسانی ہے۔
اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے محنت کرنا بھی آسانی ہے۔
صبح آفس جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا بھی آسانی ہے۔
اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا بھی آسانی ہے۔
غصے میں بھرے کسی آدمی کی کڑوی اور تلخ بات کو نرمی سے برداشت کرنا بھی آسانی ہے۔
چاۓ والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا بھی آسانی ہے۔
تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا بھی آسانی ہے ۔
دوستوں رشتے داروں کو گرم جوشی سے ملنا یہ بھی آسانی ہے۔
ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا بھی آسانی ہے۔
ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے۔
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اورپھر کہنے لگا :
“بیٹا جی! تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے شروع کر سکتے ہو ۔۔۔
آج گھر واپس جاو تو دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ بجانا اور پھر دروازہ کُھلنے کا انتظار کرنا.
آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو.
آج سے ماں کے پہلی آواز پر دوڑے چلے جانا . بہن کی ضروریات شکایت سے پہلے پوری کر دیا کرو.
آج سے بیوی کی غلطی پر اسے سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا.
اگر سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر بیٹھے شکایت بلند نہ کرنا .
کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری کر لینا.
یہ سب باتیں کہنے کے بعد درویش کہنے لگا میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں بلکہ تم زندگی کے محتاج ہو
۔ منزل کی فکر چھوڑو۔ منزل تک تمہیں خدا پہنچائے گا تم صرف اپنے لیئے اور لوگوں کے لیے راستے آسانیاں پیدا کرو ۔
زونیرہ شبیر
Discussion about this post