ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے نہایت منظم اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں۔ ایسا کرنے کے لئے بہت سے والدین سخت تراکیب اور سخت روئیے اپناتے ہیں جس سے بچہ زیادہ بگڑنے لگتا ہے۔
اصل میں یہ بچے کی شخصیت پر منحصر ہے کہ وہ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ یا سمجھانے کو کس انداز میں لیتا ہے۔ تاہم والدین بچوں کو نظم و ضبط سیکھانے کے لئے کچھ عام غلطیاں کرتے ہیں۔وہ غلطیاں کیا ہیں آئیے جانتے ہیں۔
سب سے پہلے تو والدین کو چاہئیے کہ کبھی بھی اپنے بچے کو سرعام نہ ڈانٹیں اور نہ ہی ان پر کسی غلطی کی وجہ سے چلائیں، خاص کر جب ان کو نظم و ضبط سیکھانے کا ارادہ کر رہے ہو۔ لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونا اکثر رد عمل کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اچھائیوں پر توجہ دینے کی بجائے خود کو حقیر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ لہذا ہمیشہ بچے کو تنہائی میں سمجھائیں کہ انہوں نے کیا غلط سلوک کیا ہے۔
جب بات اپنے بچے کو نظم و ضبط سیکھانے کی ہو تو، اپنے بچے کو ضرورت اور خواہش کے درمیان فرق سکھانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے بچے کی درخواستوں کو نظرانداز کریں۔ یہاں تک کہ اگر وہ غیر حقیقت پسندانہ چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو لاتعلق رہنے کی بجائے ، ان کی بات سنیں اور انہیں حقیقت سمجھانے کی کوشش کریں۔
بڑوں کے برعکس، بچوں کو دی گئی ہدایات پر کارروائی کرنے میں انہیں زیادہ وقت لگتا ہے۔ والدین کی حیثیت سے آپ کو ان قوانین کی تفصیلات بتانا چاہئیے جو آپ نے ان کے لئے مرتب کرتے ہیں۔آپ ان سے گھر میں کوئی کام کرنے کو کہہ سکتے ہو ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اس کام کو سمجھیں اور ایسا کریں۔ لہذا ، مبہم ہدایات نہ دیں اور اس کے بارے میں زیادہ واضح ہوجائیں کہ آپ کس چیز کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بچے کمزور اور معصوم ہوتے ہیں۔ ان میں خود پر قابو پانے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہےاور بعض اوقات تو ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جن سے آپ کو تکلیف ہو سکتی ہے۔ تاہم ، والدین کی حیثیت سے آپ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ سب کھیل کا حصہ ہے ۔ لہذا تکلیف محسوس کرنے اور زیادتی کرنے کی بجائے ، آپ ان کی مدد کریں ان سمجھائیں کہ بڑوں کا احترام کیسے کیا جاتا ہے۔
ہر بچہ غلطی کرتا ہے، والدین کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کب غلطی کرتا ہے۔ تاہم ، بچے پر نظر رکھنی چاہئیے کہ وہ کب کیا کر رہا ہے اور اس سمجھانے کیلئے ایک طویل لیکچر شاید موثر نہ ہو۔ وہ اصل مسئلے پر نہیں آئیں گے بلکہ ان کے ساتھ آپ کے سلوک میں نقائص پائیں گے۔ لہذا الزام لگانے سے گریز کریں۔
ایک بار جب آپ اپنے بچے کو اس بات کے پیسے دیتے ہیں کہ وہ اپنی شرارتوں سے باز آ جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ یہ طویل عرصے تک عادت بن جائے۔ لیکن اگر آپ بچے کو اس عادت سے بچنے کیلئے پیسے دیتے ہیں تو یہ عادت صرف کچھ دن ہی برقرار رہے گی۔ اس کے بجائے آپ اسے اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ کہاں غلط ہیں اور کہاں انہیں صبر اور استقامت سے کام لینا چاہئیے۔ تب ہی وہ مستقبل میں کامیاب ہو سکیں گے۔
اکثر والدین اپنے بچوں کا دوسرے بچوں کیساتھ وموازنہ کرتے ہیں اس سے وہ زندگی میں بہتر چیزوں کے حصول کے لئے متحرک ہوسکتے ہے۔ لیکن اگر سچ کہا جائے تو یہ بچے کی خود اعتمادی اور اعتماد میں رکاوٹ کا سبب بھی ہے۔ لہذا کبھی بھی موازنہ نہ کریں ، یہاں تک کہ بہن بھائیوں کے درمیان بھی۔ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہر بچہ انفرادیت رکھتا ہے۔
Discussion about this post