ٹھٹھرتا جنوری سانحہ مری دے گیا۔ اس سانحہ کے سارے ہی رخ بہت بھیانک اور حقائق آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ حکومتی ادارے ،مقامی انتظامیہ اور عوام کسی نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور جس ادارے نے ذمہ داری پوری کی دشمنان وطن نے اس کی محنت بھی رائیگاں کرنے کی کوشش کی یہ کہہ کر کہ وہ تو تنخواہیں اسی کام کے لئے لیتے ہیں۔
ہمیں کسی سے صلے کی تمنا ہی کب تھی
ہم تو چراغ ہیں جلتے ہیں پاکستان کے لیئے.
جو لوگ اس حادثے میں جان سے گئے ان کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور جو خوش نصیب بچ گئے وہ تاحیات اس سانحے کو بھول
نہ پائیں گے۔
سانحہ کے اثرات فواد چودھری کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں ظاہر ہو گیے جب انھوں نے بتایا کہ تقریبا سوا لاکھ گاڑیاں مری کی حدود میں پاکستان کی خوشحالی و معاشی ترقی کو ظاہر کرتے ہوئے داخل ہو گئی ہیں ۔ پاکستان ہائی وے اتھارٹی بھی ٹول ٹیکس اکٹھا کرنے میں اتنا مگن رہی کہ وہ یہ نصیحت کرنا بھول گئی کہ مری میں تو سوا لاکھ گاڑیوں کی گنجائش ہی نہیں اس لئے جہاں سینگ سمائیں وہاں سما جانا۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں ہوٹل مینجمنٹ نے بھی بھرپور حصہ لیا اور حقیقتا اپنے اپنے کرائے آسمان پر پہنچا دیے۔ چھوٹے کمرے کا کرایہ 3000 سے یکمشت 25000 اور مناسب کمرے کا کرایہ 40000 سے 70000 تک جا پہنچا ۔ اس بدمعاشی میں چھوٹے بڑے ہوٹل کی تفریق نہ تھی بلکہ اس کار خیر میں سبھی شریک تھے۔
پاکستان کی طرم خان عوام جو کسی قسم کے شعور اور تیاری کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔ مری کی ٹھنڈ کو بھی انھوں نے شادی والی ٹھنڈ سمجھا۔۔۔ طوفان کی ہولناکی اور پاکستان کی سیاحت میں حالت زار وہ سمجھ ہی نہ پائے اور رہی سہی کسر ہوٹل مینجمنٹ کے رویے نے پوری کر دی۔
عوام یہ سوچ کر سفر کرتے رہے کہ آگے کوئ نہ کوئ ہوٹل مل جائے گا۔۔۔جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔۔اس جملے میں پاکستانی قوم کی تباہی کا راز پنہاں ہے۔۔۔آگے ہوٹل تو نہ ملا برفباری کے طوفان سے ضرور سامنا ہو گیا۔ شدید برفباری، طوفان، راستے بند اور گاڑی میں چھوٹے بچوں اور بزرگوں کا ساتھ پھر رہی سہی کسر گاڑیوں میں لگے ہیٹر نے پوری کر دی دی ۔ بند شیشوں میں انسانی سانس سے کاربن مونو آکسائیڈ گیس پیدا ہوئی۔۔۔ چونکہ اس گیس کی بو نہیں ہوتی لہذا چپ چپاتے اس نے دماغ پر اثر کیا اور شدید نیند کے زیر اثر وہ لوگ سوئے کی سوئے رہ گئے اور 23 افراد جس میں ایک ہی خاندان کے8 افراد بھی شامل ہیں جان سے گئے۔
یہ قیامت خیز رات بھی گزر گئی۔۔۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
وہ خوش نصیب جن کو اس طوفان کے بعد سحر نصیب ہوئی ان کے کھوئے ہوئے حواس بحال کرنے کے لئے ہوٹل مافیا کمر کس کر دوبارہ میدان میں آیا۔۔۔ متاثرین مری دہائی دیتے پائے گئے کے انڈا پانچ سو روپےکا پراٹھا تین سو کا اور چائے کا کپ بارہ سو روپے تک کا بھی ملا۔۔ برف میں دھنسی گاڑیوں کو دھکیلنے کے لیے چین کا ریٹ 3000 سے 5000 تھا۔ چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کا ریٹ1500 اور بڑی گاڑی کا ریٹ 3000 مقرر ہوا۔ جن کے پاس چین کے پیسے نہیں تھے ان کے ساتھ مقامی لوگ دست و گریباں بھی ہوئے۔ آٹے میں نمک کے برابر مری میں اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں اور ان لوگوں نے متاثرین مری کو اپنے گھروں میں پناہ دی ۔ کچھ نیک دل مالکان نے اپنے ہوٹل متاثرین مری کے لئے کھول کر زخموں کا مداوا کرنے کی کوشش کی۔۔ لیکن مجموعی طور پر بے حسی کے ساتھ لوٹ مار کا عنصر غالب رہا اور پوری پوری کوشش کی گئ کہ عوام سے تن کے کپڑے تک اتروا لیے جائیں ۔
اس کڑے وقت میں وہی مسیحا سامنے آئے جو ہمیشہ پاکستان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے رکھتے ہیں۔۔ برف ہٹانے سے لے کر آخری گاڑی کے ریسکیو تک خاکی وردی ہی نظر آئی۔۔ انتظامیہ اور حکومت کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔۔ وفاقی وزراء بشمول شیخ رشید کے بیانات احمقانہ تھے ۔۔ میڈیا پر خبر چلنے کے بعد بزراد حکومت نے ہوش کے ناخن لئیے اور انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔۔۔ترجمان بھی مری پہنچے اور شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کیں۔۔انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ برف ہٹانے والی 29 میں سے 20 گاڑیاں اپنی جگہ پر کھڑی رہیں اور صرف نو گاڑیوں نے آپریشن میں حصہ لیا نیز محکمہ موسمیات کی وارننگ کو انتظامیہ نے سنجیدگی سے کیا لینا تھا افسران نے دسمبر میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میں شرکت ہی نہ کی بلکہ طوفان کے بعد اپنے اپنے نمبر بھی بند کر دیے۔
سیاسی مالشیے
اس رپورٹ کے بعد مٹی ڈالنے کے لئے ہوٹل مافیا کو بھی نتھ ڈالپنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور چھوٹے موٹے جرائم کے حامل افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ کاش ہم کوئی رپورٹ ایسی بھی دیکھیں جس میں ڈنڈا صرف اوپر سے ہی چلے۔۔۔ یہ کس قسم کی تحقیق کی گئی ہے جس میں اپنوں کو صاف بچا لیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں اے سی اور ڈی سی کا کیوں ذکر نہیں ہے۔۔۔۔مری میں کس موسم میں کیا صورتحال ہے۔۔۔اتنظامات کیسے ہیں ۔۔۔۔ایمرجنسی کی پلاننگ۔۔۔یہ کس کا سر درد تھا۔۔۔۔وہ سرکاری شہزادے جن کو خراب موسم میں چھتری اٹھانے کے لیئے بھی کسی اورکا ہاتھ چاہیے ۔۔۔ان کی نیند کب ٹوٹے گی۔۔ان 23 افراد کے قتل کے پرچے اے سی ، ڈی سی اور انکے ماتحت افراد پر ردج کئیے جائیں جن کو اپنے گرم کمروں سے نکلنے کی توفیق نہ ہوئ۔۔عوام کی اس سرکاری مافیا سے بھی خلاصی کرائی جائے۔ متاثرین مری جا بجا فوج کی تعریفیں کرتے نظر آئے اگر فوج نے ہی سارے انتظامات دیکھنے ہیں تو عوام کے پیسے کیوں سرکاری شہزادوں پر ضائع کیے جا رہے ہیں۔۔ ان تمام محکموں کا بجٹ و چارج بھی فوج کو کیوں نہیں دے دیا جاتا؟؟
محکمہ سیاحت کو بھی چاہیے کہ مری کی جان بخش دی جائے اور پورے ملک میں نئے نئے تفریحی مقامات ڈھونڈے جائیں تاکہ مری کا رش بھی تقسیم ہو سکے۔۔۔ ایک باقاعدہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں صارف گھر بیٹھے اپنے ہوٹل کی بکنگ کروائے اور ہائی وے اتھارٹی گاڑی کے نمبر سے صارف کا پورا پلان اپنی سکرین ہر دیکھ سکیں۔۔۔ بغیر بکنگ کے کسی بھی گاڑی کو آگے جانے کی اجازت نہ دی جائے اور گنجائش کے مطابق ہی ہائی وے اتھارٹی گاڑیاں ریلیز کریں۔۔عوام بھی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھیں اور اپنے پروگرام میں حکومت کو بھی شریک کریں نیز جو ہوگا دیکھا جائیگا کے کلچر سے باہر آئیں۔ حکومت تمام ہوٹلوں کی فہرست از سر نو مرتب کرے چیک اینڈ بیلنس کا پورا نظام رکھے اور تمام ہوٹلوں کے ریٹ ان کی سہولیات کے مطابق فکس کریں تاکہ سیزن مافیا کا خاتمہ ہو سکے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پلان بی تیار ہو اور خدارا مقامی انتظامیہ بھی اپنی مشینری جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کرے ۔اس سانحہ کو حکومت کو بہت سنجیدگی سی لینا چاہیے کیونکہ سیاحت کی زرخیز مٹی سے فائدہ اٹھانا بھی وزیراعظم عمران خان کے منشور میں شامل ہے۔
رحما حماد
کاش کبھی بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے افسران بھی فارغ ہوں
یہ کالم 20 جنوری سے پہلے لکھا گیا ہے۔۔۔وزیر اعلی پنجاب نے رپورٹ پر ایکشن لیے لیا ہے۔
Discussion about this post