آج وزیراعظم عمران خان کا ایک آرٹیکل اخبارات میں شائع ہوا۔ یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں تھا۔اس کی وجہ بھی تھی کہ بین الاقوامی میڈیا خاص طور پر یورپ کو بتانا بھی مقصود تھا۔ یہ کالم واقی ایک تاریخی حیثیت کا حامل تھا اور نوجوان نسل کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسکو پڑھیں اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ یہ کالم نہیں بلکہ آپ اسے ایک پڑھے لکھے شخص کی ڈیجیٹل تبلیغ سمجھ سکتے ہیں۔
اب کچھ زکر تنقید کے اس حصے کا بھی ہو جائے جس میں مریم اورنگزیب فرماتی ہے کہ خان کا یہ کالم جو کہ قرآن پاک اور احادیث کی روشنی میں لکھا گیا ہے بالکل ایسے ہی ہے جیسے چور چوری کے بعد مسجد میں پناہ لے لے۔ تنقید کرتے وقت وہ بس یہی سوچتی ہے کہ کمال ہو گیا ہے اور میں نے خان کی وہ درگت بنا دی ہے کہ وہ نہ صرف توبہ کرلے گا بلکہ سیاست سے بھی ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لے گا۔
خان نے اپنے کالم میں بتایا ہے کہ ریاست مدینہ کے ماڈل کے پانچ بنیادی اصول تھے جو کہ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق تھے۔۔ جیسے
توحید
قانون کی حکمرانی
عدل و انصاف
زکوتہ / ٹیکس
اور مساوات یعنی ترقی میں سب کا یکساں حصہ
پھر خان نے اس میں یہ بھی بتایا کہ کسطرح قومیں اور تہذیبیں اوپر اٹھتی ہیں اور کیسے زوال پزیر ہو جاتی ہیں نیز یہ کہ پاکستان میں کیا مسائل چل رہے ہیں اور ایک تھوڑی سی اشرافیہ نے کسطرح ملک و عوام کو لوٹا اور تقریبا %90 وسائل پر قبضہ کرلیا۔
جیسے ہی کالم چھپا اشرافیہ نے اپنی روایت کو زندہ رکھا اور بغیر سوچے سمجھے تنقید شروع کر دی۔۔۔ ان کہ ان کے رد عمل بالکل ایسا ہی تھا کہ بغیرتا میں تینوں کیہہ کیا ایہہ۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کالم میں مسائل و وسائل و نقصانات کی نشاندہی سورۃ آل عمران کی آیات اور قرآن پاک کے حوالے سے کی گئی تھی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آپ اس کالم کی تعریف نہ کریں کیونکہ آپ سے توقع بھی یہی ہے لیکن اس پر تنقید بھی نہیں بنتی تھی جو کہ آپ نے کی اور بغیر سوچے سمجھے کی۔۔۔اپوزیشن کے اس طرز عمل پر بس یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایہ بستی الی گل جے۔
اس تنقید میں مسلم لیگ کے ترجمان نے بڑھ چڑھ کر اور پیپلز پارٹی نے عمومی طور پر حصہ ڈالا۔۔۔جھوٹی مریم اورنگزیب اور بلاول کے بیان پر مجھے ایک اسٹیج ڈرامہ (بڑا مزہ آے گا) کا ایک ایکٹر ( سہیل احمد) یاد آ جاتا ہے جو سارے ڈرامہ میں لفظ ایکشن کا انتظار کرتا تھا کہ کوئ اداکار ایکشن بولے تو وہ بے تکے فلمی ڈایلاگ بولنا شروع کرے اور دیکھنے اور سننے والوں کو ایک لافٹر بل جاتا تھا
بالکل اسی طرح جیسے ہی خان کا کوئی بیان کوئی آرٹیکل کوئی کالم کوئی بین الاقوامی فورم پر تقریر سامنے آتی ہے تو ان کو تنقید کی چابی مل جاتی ہے اور عوام کے لئے اچھا خاصا لافٹر کا اہتمام ہو جاتا ہے ۔
مجھے بتایا جائے کہ خان نے کیا غلط کہا ہے اگر اس اشرافیہ کو توحید کا احساس ہوتا تو کیا خوف خدا نہ ہوتا؟؟
اگر قانون کی پاسداری کا احساس ہوتا تو خلاف قانون جاکر اپنی تجوریاں کیوں بھرتے اور پھر وہ خلاف قانون کام کرتے جو عوام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
عدل و انصاف کی اہمیت کو جانتے تو کیا انصاف کو خریدنے کی ٹھانتے۔۔ باضمیر لوگ مکہ مدینہ جا کر حج کرتے ہیں لیکن یہ بے ضمیر لوگ مکہ مدینہ جا کر بھی جج کرتے ہیں۔
کیا یہ شریف خاندان کیا زرداری کیا وڈیرے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت سے باہر نہیں آتے۔۔۔ ایک وقت تھا جب بی بی کی حکومت تھی اور کوئ جج زرداری کا کیس سننے پر آمادہ نہ ہوتا تھا یوں باری باری کر کے 7 جج تبدیل ہوئے۔
اسی طرح دیگر گماشتے عزیر بلوچ وغیرہ کیس ختم کروا کر باہر نہیں آ جاتے۔۔کسطرح عدلیہ شریفوں کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے۔۔کسطرح چھٹی والے دن بھی عدالت لگتی ہے اور ضمانتیں ملتی ہیں اور جہاں ریلف ملنا ہو وہاں دن میں تین دفعہ عدالتیں لگا کر ریلیف دیا جاتا ہے۔۔کون نہیں جانتا کہ کسطرح ایم کیو ایم نے 10-15 سال خوب وسائل کو لوٹا۔۔۔بھتہ خور پیدا کیے۔۔۔کسطرح کراچی کو دو منٹوں میں بند کیاجاتا تھا الغرض شرفاء میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔کیا جرنیل کیا جج حضرات کیا کاروباری شخصیات اور بہت ہی زیادہ سیاسی شخصیات جنھوں نے عدل و انصاف کو بے توقیر کرنے میں اپنا بہترین حصہ ڈالا . اس طرح معاشرے میں اس رجحان کو بھی پروان چڑھایا کے ٹیکسز میں بھی ہیرا پھیری کرو . اس میں آپ زکاۃ کا نظام بھی شامل کر سکتے ہیں۔۔ پھر مساوات کا بے دریغ خون کیا یعنی غریبوں اور عوام کی حق تلفی کی گئی۔
یہ تو بہت اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ خان نے اپنے کالم میں نشاندہی تو بالکل ٹھیک ٹھیک کی ہے کہ ہمارا معاشرہ ، ہماری تہذیب بحیثیت قوم ہم کیوں اتنی پستی کا شکار ہو رہے ہیں اور ملک اتنی بے چینی اور افراتفری کی کیفیت میں کیوں ہے.
جہاں تک مریم اورنگزیب کی بات ہے تنقید کرتے وقت اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ آگے سے اسے اس کا چہرہ بھی دکھایا جا سکتا ہے جو کہ ماشاء اللہ کافی بھیانک ہے اور قابل شرم بھی ہے.
او گندی و نالائق و گھٹیا بی بی
خان تو جب چوری کرے گا تو مسجد میں پناہ لیے گا نا تمہارے نالائق اور چغد باو جی نے اپنے خاندان کے ساتھ ملکر پوری قوم اور ملک کو لوٹا بلکہ بڑی بھیانک ڈکیتی بھی کر ڈالی اور پناہ بھی لی جا کر مکہ اور مدینہ میں اور پھر کافی عرصہ یہی بیانیہ چلتا رہا کے ہمیں تو اللہ نے اپنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں پناہ دے دی ہے یعنی بلوا لیا ہے لیکن بی بی یہ پناہ نہیں تھی یہ ڈھیل دی تھی جو اللہ نے تمہارے باؤجی کو دی اور پھر وہ یہاں سے بھی دھتکار دیے گئے کہ حکمرانی اور اقتدار کی ہوس نے اسے اور اس کے خاندان کو اندھا کر دیا تھا کیونکہ ہدایت وہ نعمت ہے جو مانگنے سے ملتی ہے ۔۔ مٹی ہونے سے ملتی ہے ۔۔ زمین کے ساتھ لگ جانے سے ملتی ہے اور ہر قسم کا سریا جسم و دماغ سے نکال دینے اور اپنی انا کو بالائے طاق رکھنے سے ملتی ہے لیکن یہاں تو رعونیت و فرعونیت بدرجہ اتم اب بھی موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ لکھے گی کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں تو موجود تھیں لیکن عزت کہیں نہ تھی۔
واسلام
تھری ایس
Discussion about this post