آج میرے بیٹے حارث نے مجھے ایک مییم بھیجی اس فرمائش کے ساتھ کہ اس پر کالم لکھیں ۔ میم کے اوپر درج تھا تم سالا غلام لوگ۔۔ یہ میم اپنی کہانی آپ سناتی تھی۔۔۔ یہ میم پی ڈی ایم کے تمام رہنماؤں کے غیر جمہوری رویے پر ہے کہ یہ لوگ جمہوریت کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور خود کتنے جمہوری فیصلے کرتے ہیں..
میں پی ایم میرا بیٹا سی ایم اور تم سالہ غلام لوگ میری جوتی کی نوک پر۔۔۔ یہی جمہوری کلمہ پنجاب میں باؤجی پڑھتے ہیں کہ میں پی ایم میری بیٹی پی ایم اور پھر میرا نواسہ بھی سی ایم اور تم سالہ غلام لوگ میری جوتی کی نوک پر ۔۔۔ یہی سوچ سندھ میں بھی ہے کہ میرا نانا پی ایم میری ماں پی ایم میرا باپ صدر اور میں مستقبل کا پی ایم اور تم سالہ غلام لوگ میری جوتی کی نوک پر ۔۔ یہی حال پشاور میں ہے کہ پچاس سال پہلے مفتی محمود لیڈر بنے پھر فضل الرحمان پارٹی کا بلا شرکت غیرے لیڈر ہے اور اب اس کی بھی یہی سوچ ہے کہ اگر مجھے کچھ ہوگا تو میرے بیٹے کے علاوہ کوی مائ کا لعل یہ پارٹی نہیں چلا سکتا ۔ اس لیے کہ تم سالا غلام لوگ ہمارے جوتے کی نوک پر۔۔۔ یہی حال باچا خان کی پارٹی میں اور بگٹی کی پارٹی میں پایا جاتا ہے ۔۔ دنیا میں لیڈر بننے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے لیکن پاکستان میں لیڈر بننے کے جراثیم صرف اس شخص میں پاے جاتے ہیں جس کے آباو اجداد میں لیڈری پائی جاتی ہوں ان خاندانوں میں بچے نہیں پیدا ہوتے بلکہ صرف لیڈر ہی پیدا ہوتے ہیں۔
میری عمر 64 سال ہے اور میرے سامنے پاکستان کی چار نسلیں گزر چکی ہیں جن میں سے وہ نسل تو بالکل ہی خواب ہو گئی جنہوں نے پاکستان بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔ اس کے اس کے بعد ہماری نسل جنہوں نے پاکستان بنتے تو نہ دیکھا البتہ 1965 کی جنگ دیکھی۔۔پھر ہمارے بچے جب رشوت خوری آہستہ آہستہ پھل پھول رہی تھی اور آج کل کا زمانہ جب اوپر کی کمائ ایک اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔۔۔ اس پورے سرکل میں دل و دماغ چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ یہ جمہوریت کے چیمین ہیں اور جمہوریت ان کے دم سے ہے اور ہم سالا غلام ابن غلام ابن غلام ہیں اور ان کے جوتے کی نوک پر بھی ہیں اور بڑی جانفشانی سے پچھلے 75 سالوں سے یہ غلامی کا طوق پہنے ہوئے ہیں۔۔۔ رہے نام اللہ کا
اب بات ہو جائے خان کے ماسٹر سے بھی ماسٹر سٹروک کی۔۔۔ اس سٹروک کے بعد تمام اپوزیشن لیڈر جو بڑی ہواؤں میں اڑ رہے تھے اڑنا بھول گیے اور پھر کافی دیر تک ہواوں میں رہنے کے بعد کسی کارٹون کریکٹر ( ٹام کیٹ ) کی طرح زمیں بوس ہوئے۔۔ کافی دیر تک تو اپوزیشن کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ہوا کیا ہے خاص طور پر زرداری کی حالت کافی غیر لگ رہی تھی شاید دماغ میں کہیں یہ کیڑا کلبلا رہا تھا کہ اگر عمران خان کا ساتھ دے دیتا تو آج اس حالت میں نہ ہوتا اور سیاست میں بھی نواز شریف اور فضلو کا صفایا ہو جاتا اور تعریف و تحسین کے ڈونگرے مجھ پر بھی برس جاتے ۔ بقول اعتزاز احسن کہ خان نے اتنا لمبا چھکا مارا ہے کہ بال ہی گما دی ہے ۔
کچھ ٹی وی چینلز کو نکال کر باقی تمام چینلز کے ہاں صف ماتم تھا اور پی ڈی ایم رہنما اور چینل کے اینکر حضرات یہی کہتے پائے گئے کہ خان نے آئین توڑا ہے اور آرٹیکل 6 لگنا چاہیے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد وزیر اعظم کے پاس اسمبلیاں توڑنے کا اختیار واپس آ گیا اور خان نے اس سوچ کے ساتھ کے اسمبلی میں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو چکی ہے تو نئے مینڈیٹ کے ساتھ آنا چاہیے جبکہ اپوزیشن تین سال یہی روتی رہی کہ الیکشن کروائے جائیں الیکشن کروائے جائیں اب جب الیکشن کروا رہے ہیں تو ان کو پرانی حکومت واپس چاہیے تاکہ وہ اس سے استعفی لے کر خوش ہو سکیں۔۔ الیکشن ویسے بھی ہر پانچ سال کے بعد ہوتے ہیں اگر ایک سال آگے پیچھے بھی ہو جائے تو کوئ مضائقہ نہیں اور حل بھی یہی ہے کہ عوام فیصلہ کرے۔۔ جب کے پی ڈی ایم لیڈر ان کا موقف ہے کہ ہم ووٹنگ میں جیت رہے تھے اس لیے خان نے جان بوجھ کر اسمبلی توڑی اس لیے ہم نے الیکشن سے نہیں بلکہ اسمبلی میں ووٹنگ سے ہی اقتدار لینا ہے ۔ یہ آپ سے عرض کرتا چلوں کہ خان کو تو سیاست ہی نہیں آتی جبکہ جمہوریت تو ان سب کے گھر کی لونڈی ہے اور یہ سب سیاست کے چیمپئن ہیں اور معلومات کا عالم یہ ہے کہ ان کو یہ تک نہیں پتا کہ عدم اعتماد کے پیش کرنے تک سات دنوں کے اندر اندر ووٹنگ لازمی ہے اگر کسی وجہ سے ووٹنگ نہ ہو سکے تو سات دنوں کے بعد دنیا کی کوئ طاقت ووٹنگ نہیں کرا سکتی لہذا یہ تیر خان نے بڑا زور دار چلایا ہے اور یہ ساری اپوزیشن اس کا شکار ہوگئی ہے کیوں کہ خان تو ابھی نیا آیا ہے اور سیاست میں اناڑی ہے کیوں کہ شاطر دماغوں نے یہ سازش یہ سوچ کر ہی بنائ تھی کہ ہر صورت میں خان کو باہر کرنا ہے ۔
جہاں پر کتنے ہی غیر ملکی سفیر اپوزیشن کے رہنماؤں اور لوٹوں سے سے ملتے پائے گئے وہاں پر ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس قرار داد کے لانے سے پہلے بد نام زمانہ صحافی میر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا انٹرویو کیا جس کو دیکھ کر باقاعدہ یہ محسوس ہوا کہ ایسی فضا بنائی جا رہی ہے جیسے چور چوری کرنے کے بعد اپنے حق میں ہوا چلاتا ہے یعنی چور نالے چتر۔۔ اس انٹرویو میں میر کے ایک سوال میں جناب اپوزیشن لیڈر کا جواب تھا کہ ان حالات میں ایک ہی حل ہے کہ عمران خان کو باہر کر دیا جائے ۔۔ اور ایک ایسی عوامی حکومت بنائی جائے باہمی مشاورت کے ساتھ جو اپنے پانچ سال پورے کرے اور شبانہ روز محنت کی جائے۔۔۔ تاکہ پاکستان کو اس حالت پر لایا جائے جہاں پر الیکشن کا سلسلہ پھر شروع کیا جا سکتا ہے۔۔ یعنی پانچ سال کی حکومت غلام عوام کو جوتے کی نوک پر رکھ کر بنائی جائے۔۔ اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے دو چار دنوں بعد عدم اعتماد پیش کر دی جاتی ہے۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ انٹرویو ہو رہا تھا اور عوامی حکومت کے لیے فضا بنائی جا رہی تھی تو دونوں کو پتا تھا کہ ہم کیا کھچڑی پکا رہے ہیں۔ انھی گندی حرکتوں اور نیتوں کی وجہ سے یہ اس حال میں ہیں۔۔ مطلب یہ کہ الیکشن میں جانا نہیں کیونکہ عوام میں جانے کے قابل نہیں رہے۔۔ لہذا سارا دن اسمبلی میں بیٹھے رہے اور ضد کرتے رہے کہ ووٹنگ کراؤ بالکل ان بچوں کی طرح جو بارات جانے کے بعد سٹیج پر قبضہ کر لیتے ہیں کیوں کہ جس مقصد کے لیے یہ ہنڈیا چولہے پر چڑھائی گئی تھی وہ تو پورا ہی اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہونا تھا جیسے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینا ، ای ووٹنگ ختم کرنا اور صحت کارڈ ختم کرنا احساس پروگرام سبوتاژ کرنا سب سے بڑھ کر نیب کو ختم کرنا ۔۔ اور غیر ملکی ایجنڈا اس طرح پورا ہونا تھا کہ اس کے بدلے میں پاکستان فیٹف سے نکل آتا اور تھوڑی بہت رعایتیں حاصل کر لیتا۔۔ لیکن یہ سب ہونا کیسے تھا وہ بالکل اسی طرح جیسے میرے بیٹے نے بتایا کہ تم سالا غلام لوگ۔۔ یعنی عوام کو مزید جوتے کی نوک پر لکھنا تھا اور ساری مراعات اپنے لیے تھے۔۔ جو تھوڑا بہت مشکل ٹائم عمران خان کی وجہ سے آیا تھا اس کی کسر نکالی جانی تھی اور ہم سالہ غلام لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو اور مزید مقروض کر جاتے۔۔ لیکن پتہ نہیں یہ خان کیسے راستے میں آ گیا نہ صرف آ گیا بلکہ آئندہ کے لئے آنے والی غلامی کو بھی تالا لگا گیا۔ لہذا اب آئیں اور خان سے مقابلہ کریں اور اس عوام کو اپنا باپ بنائیں جن کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھتے تھے۔۔ اس عوام کو جس کو سوچنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا لیکن خان نے نا صرف ان کو شعور دیا بلکہ اللہ نے بھی اپنا کرم فرمایا کہ جو مکروہ جال انہوں نے خان کے لیے بچھایا تھا لیکن ساری پی ڈی ایم خود اس میں پھنس گئی بلکہ خان پر یہ احسان بھی کر گئی کہ خان کے زیادہ تر اتحادی کچھ ساتھی بری طرح ایکسپوز ہو گئے۔۔ الیکشن لڑنے کے بھی قابل نہ رہے بلکہ اپنی سیاست کی لٹیا ہی ڈبو بیٹھے۔۔ کیا اب نون لیگ ان تمام لوٹوں کو ٹکٹ دے گی ؟ ٹکٹ تو دور کی بات پتہ نہیں اب ان کو پیسے بھی پورے ملیں گے کہ نہیں۔۔ ایم کیو ایم اپنا صفایا کروا بیٹھی باپ پارٹی بھی اپنی حجامت کروا بیٹھی ، لیکن کچھ اتحادی اپنی بقا بچا گئے جیسے زبیدہ جلال جیسے فہمیدہ مرزا اور ساری جی ڈی اے۔۔۔ نون لیگ کے اقتدار کا وظیفہ جو کہ کچھ یوں تھا
یا علیم یا ترین
چوہدری برادران بہترین
کا تو ایسا شیرازہ بکھرا کہ یا علیم یا ترین بلیک میلنگ کے چکر میں گندے ہو کر فارغ ہو گئے اور چوہدری برادران عمران خان کے لئے بہترین ثابت ہوئے ۔۔۔ اب کچھ بات مریم نواز کی بھی ہو جائے کچھ عرصہ پہلے اس نے اپنے استاد کو بتایا کہ کیسے اس نے اپنے حکمت عملی سے عمران خان کی جئ تئ پھیر دی ہے تو میڈم نے جئ تئ کا صرف سنا تھا مطلب بالکل نہیں آتا تھا نہ ہی استاد صاحب نے اصلاح فرمائی جبکہ خان نے ماسٹر اسٹروک کھیل کر نہ صرف اس کو مطلب سمجھایا بلکہ یہ بھی بڑے پیار سے بتایا کہ اسے پھیرا کیسے جاتا ہے اور باجی اپنے تمام خاندان بالخصوص پتا شری کی جئ تئ کروا بیٹھی۔۔ پتا شری کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کیونکہ یہ خاندان ہندوؤں کے رسم و رواج میں بری طرح پھنسا ہوا ہے اور اپنے ہر فنکشن میں ہندو گانے گا کر پاکستانی عوام کو کہ تم سالا غلام لوگ ہمارے جوتے کی نوک پر ثابت بھی کرتا ہے لیکن اللہ واقعی مسبب الاسباب ہے اور اس کے پاس ہر چال کا بہترین جواب ہے جیسے کہ عدم اعتماد ان پر ہی الٹا دے جنہوں نے یہ سازش کی تھی ۔۔ اگر ہم اپوزیشن کی کیفیت کو سمجھنا چاہیں تو بالکل ایسے ہی جیسے کہ تمام اپوزیشن جو کہ نہر میں نہا رہی تھی ان سب کے کپڑے خان لے کر بھاگ گیا ہے اور اب وہ سکتے میں ہے ۔۔
واسلام
تھری ایس
Discussion about this post