طاقتور ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا نام لیے بغیر سابق وزیراعظم عمران خان نے ان سے کہا کہ وہ اپنی غلطی کو درست کریں اور واحد راستہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔
مینار پاکستان پر ایک بڑے ہجوم سے خطاب میں انہوں نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی تاریخ نہیں بتائی جس کی بہت سے مبصرین توقع کر رہے تھے۔ غالباً وہ اپنی آخری کارروائی یعنی ڈی چوک پر دھرنے سے پہلے قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے کچھ پیش رفت کی توقع کر رہے ہیں۔
ان کی ایک گھنٹے کی تقریر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے جس کی پشت پر امریکا ہے اور اس کے نتیجے میں عدم اعتماد کے ووٹ کو راہ ملی۔ وہ چاہتے ہیں جنہوں نے یہ غلطی کی وہ اسے درست کریں۔ وہ یقیناً امریکہ سے نہیں کہہ رہے۔
ایک روز قبل ان کے ترجمان سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نہیں گرتی اگر اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پچھلے چند مہینوں میں خوشگوار ہوتے
سابق وزیراعظم نے اپنی تقریر میں شاید ہی کسی ادارے بشمول عدلیہ، ان کے اپنے نامزد کردہ چیف الیکشن کمشنر وغیرہ کو بخشا ہو۔ لیکن اسے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی حمایت یافتہ بین الاقوامی سازش قرار دیا۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ سب اس کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔
گزشتہ تین عوامی جلسوں میں انہوں نے ایک مضبوط بیانیہ بنایا کہ مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ عدم اعتماد کا ووٹ اس وقت کی اپوزیشن کے ساتھ مل کر واشنگٹن میں رچی گئی امریکی حمایت یافتہ سازش تھی اور انہیں یقین ہے کہ امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر کو دھمکایا گیا تھا۔
لیکن جمعرات کو انہوں نے دوسرے کھلاڑیوں کا بھی گول مول الفاظ میں ذکر کیا جن کے ساتھ انہوں نے اپنی غلطی کو درست کرنے کو کہا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کی تشکیل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے اسے پہلے ہی مسترد کر دیا لیکن مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے انکوائری کمیشن قائم کیا جائے اور کھلی سماعت بھی کی جائے۔
شہباز شریف کی حکومت نے اپنی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے پر غور کیا اور اور جمعہ کو پارلیمان کے قومی سلامتی کمیشن کا اجلاس بھی ہوا جس میں ’لیٹر گیٹ‘ پر جاری تنازعہ کا جائزہ لیا گیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقے تلاش کیے گئے۔
وہ ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں اور کہا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے علاوہ پاکستان کی کبھی بھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں رہی۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو کو ان کی پالیسی کی وجہ سے ہٹایا اور پھانسی دی گئی اور اس میں اس وقت کے میر جعفر اور میر صادق نے اپنا کردار ادا کیا۔ چنانچہ گزشتہ تین عوامی جلسوں میں انہوں نے امریکہ مخالف جذبات پر مبنی اپنا ’بیانیہ‘ تیار کیا لیکن گزشتہ چند دنوں میں اپنی برطرفی کے پیچھے براہ راست یا بالواسطہ دوسری قوتوں پر بھی الزام لگارہے ہیں۔
غالباً وہ چاہتے تھے خصوصاً مبینہ طور پر ان کے خیال میں بین الاقوامی سازشس سامنے آنے کے بعدجب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ان کے ساتھ ہوتی۔ وہ مایوس نظر آئے کہ سپریم کورٹ نے اس پہلو پر غور کیوں نہیں کیا اور یہ بھی کہ جب ان کے بہت سے ایم این ایز منحرف ہوئے اور سندھ ہاؤس میں پائے گئے تو وہ کیوں خاموش رہے۔
تمام عملی مقاصد کے لیے انہوں نے 12 جماعتوں کی مخلوط حکومت سے سب کو نشانہ نہیں بنایا جن میں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جے یو آئی، اے این پی، بی اے پی، بی این پی، جے ڈبلیو اے پی کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمیشن، عدلیہ اور اب اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہیں۔
اگر فوری طور پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو وہ یہاں سے کہاں جائیں گے۔ یہ آسان نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ انہیں عدم اعتماف کے ووٹ ʼ کے ذریعے ہٹایا گیا اور وہ بھی پی ٹی آئی کے 22 ایم این ایز کی حمایت کے بغیر جنہوں نے انحراف کیا تھا۔
یہ ان کے اپنے سابق اتحادیوں جیسے ایم کیو ایم (پاکستان)، بلوچستان عوامی پارٹی اور پی ایم ایل (ق) کے دو ایم این ایز تھے، اعتماد کا ووٹ کامیاب ہوا۔ وہ قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں اور حکومت کا اگلے سال سے پہلے قبل از وقت انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جب تک کچھ ڈرامائی نہ ہو۔ لہٰذا مئی کے وسط تک ڈی چوک پر 2014 کے دھرنے کا اعادہ یقینی ہے۔
Discussion about this post