جب اللہ پاک نے انسان یعنی حضرت آدم کو پیدا کیا تو ان کو جنت میں ہی رکھا اور وہاں پر وہ بے لباس ہی رہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو جنت کا ہر پھل اور نعمت کھانے کا حکم دیا سوائے ایک درخت کے جو کہ گندم کا تھا۔
مگر شیطان کے بہکاوے میں آ کر انہوں نے وہ پودہ کھا لیا اور پھر یوں ہوا کہ انہیں ایک دوسرے سے شرم آنے لگ گئی اور وہ اپنے آپ کو چھپانے لگے، انہیں احساس ہونے لگا کہ وہ بے لباس ہیں اور اللہ تعالی نے ان کو سزا کے طور پر جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا اور پھر انسانی کہانی کا آغاز ہوا۔
یہ تو ہمارا ماضی ہے کہ جب شعور اللہ پاک نے نہیں دیا تھا تو انسان بے لباس بھی تھا تو اس کو فکر نہیں تھی مگر جب اسے شعور آ گیا تو اپنے آپ کو پتوں سے تو کبھی درختوں کی چھال سے تو کبھی لوہے کے لباس سے اور رفتہ رفتہ دھاگے کے کپڑے سے خود کو ڈھانپنے لگا۔ تاکہ اس کی شرم و حیا قائم رہے اور اللہ پاک نے دنیا میں جو انسان کی رہنمائی کے لئے نبی اور رسول بھیجے وہ ان کی تعلیمات پر عمل کر کے اپنے آپ کو دین اور دنیا میں کامیاب کر سکیں۔
میں نے ان تمام باتوں اور انسانی ارتقا کا ذکر اس لئے کیا ہے کیونکہ انسان نے دنیاوی ترقی کیلئے بہت زیادہ محنت کی مگر اخلاقی طور پر وہ گر چکا ہے اور مزید گہرائی میں گرتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی اور سب سے ٹھوس وجہ میرے خیال میں یہی ہے کہ انسان جیسا ہے جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے دین پر عمل کرنا بھول چکا ہے یا پھر وہ کرنا ہی نہیں چاہتا ہے۔ اس نے دنیا کی ترقی، دولت اور شہرت کو ہی سب کچھ مان لیا ہے۔
ہر انسان بے حیائی اور بے شرمی کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور وہاں سے نکلنا بھی نہیں چاہتا بلکہ اس کو لگتا ہے کہ وہ ہی صحیح ہے جو وہ کر رہا ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ "جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو جو تمھارا جی کرے وہ کرو”۔ اور آج کا ہمارا معاشرہ یا پوری دنیا میں انسان خواہ کسی بھی مذہب کا ہو وہ یہی کر رہا ہے جو اس کو بہتر لگتا ہے۔ میری تمہید زیادہ ہو گئی مگر مقصد صرف یہی ہے کہ ہمارے اور جانوروں کے درمیان واضح فرق بس رہن سہن کا ہی تھا، وہ بھی تقریبا ختم ہو گیا ہے۔ اور جو انسان اشرف المخلوقات کہلاتا تھا وہ اب جانور بننے میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے کو کہ انڈیا کے مشہور اداکار اپنی سابقہ بیوی اور بیٹی کیساتھ کھڑے ہیں لیکن حیرت کی بات یا افسوس کی بات ہے کہ عامر خان کی نام نہاد مسلمان بیٹی نے بکنی پہنی ہے اور باپ نے صرف شرٹ، توبہ استغفراللہ۔۔۔ آج کل یہی دیکھنا رہ گیا تھا۔ پہلے تو یورپ اور امریکا اخلاقی طور پر تباہ و برباد ہو گئے ہیں اور اب انڈیا میں نام نہاد سیکلولرزم کی وجہ سے مسلمانوں کا برا حال ہو جانا ہے۔
جو لوگ کچھ امیر یا اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ ہندوؤں کی خوشنودی کی خاطر ایسی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔خدارا اگر آپ اخلاقی اور مذہبی طور پر گر ہی چکے ہیں تو انسانیت کے ناطے ہی ایسی حرکتیں نہ کریں جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔ اگر آپ کو اپنا خیال نہیں ہے تو ان کروڑوں مسلمانوں کا کر لیں۔
جو آپ کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں اور ان کو طعنے ملتے ہیں اور ان پر عرصہ حیات تنگ کی جا رہی ہے۔ان پر رحم کرو آپ نے نہیں بدلنا نہ بدلو مگر ہر چیز دنیا کو دیکھانا ضروری نہیں ہے۔ رحم کرو اپنے آپ پر اور اگر خیال آ جائے تو باقی مسلمانوں پر بھی۔ اللہ آپ پر رحم کرے اور ہدایت دے آپ کو بھی اور ہم سب کو بھی آمین۔
Discussion about this post